ازقلم : اریبہ افضل
مکمل ناول ۔۔۔۔۔۔!!
“سفید حویلی پورے آب و تاب سے چمک رہی تھی ۔ سڑھیوں اترتے وہ بے خیالی میں ہی کسی سے ٹکرائی تھی سر پر شدید درد محسوس ہوا ایسا لگا جیسے وہ کسی پتھر نما وجود سے ٹکڑا گئی ہو ۔۔۔۔۔۔
“آنکھیں ہے یا بٹن “۔۔۔۔
آبرو اچکائے وہ تنک کر بولا تھا وہ خود موبائل فون پر لگا نجانے کس سے محو گفتگو تھا جب مقابل لڑکی نے اس کے سخت لہجے پر لب بھینچ لیے تھے ۔۔۔۔
“معذرت ۔۔۔۔!!”
وہ نظریں جھکائے بس اتنا ہی بولی کہ کایان شاہ نے ایک سرسری سی نظر اس کے وجود پر ڈالی تھی جو بلیو فراک میں سر پر حجاب کیے شرمندہ تاثر لیے کھڑی تھی ۔۔۔
“یہاں کیوں کھڑی ہو اب جاؤ یہاں سے “۔۔۔۔
وہ اب کی بار مزید سختی سے بولا کہ نور العین چونک گئی تھی اس نے نظریں اٹھا کر اس عجیب و غریب شخص کو دیکھا تھا جو کبھی سرد اور گرم بن جایا کرتا تھا ۔۔۔۔
وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ کایان نے اس کی پشت کو گہری نظروں سے گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔
•••••
“بابا سائیں یہ غلط بات ہے “۔۔۔۔
وہ احتجاجاً دبی آواز میں چینخا تھا جب شاہ سائیں نے اسے گھورا ۔۔۔۔
“کیا غلط ہے اس میں ہاں اگر تم باہر کے ملک جانا چاہتے ہو تو پہلے نکاح کر کے جاؤ”۔۔۔۔۔۔
وہ ذرا سختی سے بولے کہ حارث شاہ نے ماتھے پر تیوری چڑھائی تھی ۔۔۔
“یہ ضروری تو نہیں ہے “۔۔۔۔۔
وہ پھر سے گویا ہوا تھا وہ باہر جا کر پڑھنا چاہتا تھا اپنے خواب پورے کرنا چاہتا تھا وہاں کے رہن سہن میں گھلنا چاہتا تھا مگر گھر والے اس چیز کی اسے اجازت ہی نہیں دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
” ضروری ہے یہ حارث یا تو تم یہاں نکاح کر کے جاؤ ورنہ بھول جاؤ اپنے باہر کے خوابوں کو “۔۔۔۔
شاہ سائیں اٹل لہجے میں بولے کے حارث نے کب بھینچے تھے ۔۔۔۔
“ہممم یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے “۔۔۔
وہ اپنے بابا کی جانب دیکھتے بولا جن کی خاموشی صاف بیان کر رہی تھی کہ وہ یہی چاہتے ہے ۔۔۔۔
“ٹھیک ہے میں تیار ہوں پر میں صرف نکاح کروں گا دو دن کے اندر آپ کو جو کرنا ہے کر لے “۔۔۔۔
وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولا اس کے چہرے پر سرخی گھل گئی تھی شاہ سائیں کے چہرے پر فتع مندی کی مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔
“ٹھیک ہے جاننا نہیں چاہو گے کے لڑکی کون ہے “۔۔۔۔
شاہ سائیں نے اس کے تنے نقوش کو خاطر میں نا لاتے ہوئے بھنویں آچکائے سوال کیا تھا جس پر وہ آنکھیں گھوما گیا تھا۔۔۔
“نہیں بھی پوچھوں گا تو آپ بتا ہی دے گے “۔۔۔۔۔
نظریں گھوماتے وہ بے زاریت سے بولا تھا ۔۔۔۔
“نور العین” ۔۔۔۔ !!
ان کی بات پر دروازے میں کھڑی نور العین پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے وہ لب بھینچ گئی تھی اسے یقین نہیں ہو رہا تھا اس کی زندگی کا فیصلہ ہو اچانک دو دن میں ہی ہو جائے گا وہ واپس الٹے قدموں پلٹ گئی تھی ۔۔۔
“میرے بھائی بھابھی اس دنیا میں نہیں میں چاہتا ہوں بچی گھر میں ہی رہے امید ہے تم اسے خوش رکھو گے برخوردار”۔۔۔۔۔
شاہ سائیں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے مسکرا کر روم سے نکلے جبکہ وہ پیچھے واپس سے صوفے پر ڈھے گیا تھا سرخ ہوتے ماتھے کو مسلنے لگا۔۔۔
نور العین جیسی لڑکی کا تصور اس نے کبھی نہیں کیا تھا وہ تو ایک اچھی اور ماڈرن لڑکی کا تصور کیے بیٹھا تھا پر اب کیا ہو سکتا تھا شاہ سائیں کا کہا وہ ٹال بھی نہیں سکتا تھا اس نے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا تھا۔۔۔۔
•••••
نور العین شاہ سائیں کے چھوٹے بھائی کی بیٹی وہ اکلوتی اولاد تھی اور اپنے تایا ابو کے بے حد نزدیک بھی اس کے ماں باپ کے ایکسیڈنٹ میں انتقال کے بعد شاہ سائیں نے ہی اسے بہت پیار سے رکھا جبکہ تائی بھی اس کے لاڈ اٹھاتی جا تھکتی تھی مگر وہ شاید یہ نہیں جانتی تھی کے اس کی قسمت میں کیا ہونے والا ہے آخر۔۔۔!!
“نور العین بیٹا کیا خیال ہے آپ کو شادی کے بارے میں”
وہ سفید یونیفارم میں ملبوس تھی بالوں کی کچھ لٹے چہرے پر تھی جنہیں وہ ہاتھوں سے پیچھے کر رہی تھی ایک پتلی سی لکیر کاجل کی کھینچی گئی تھی یہی اس کی پسندیدہ چیز تھی اپنی آنکھوں میں کاجل اسے بے حد پسند تھا۔۔۔
شاہ سائیں کی بات پر اسے اچھو سا لگا تھا حارث اور کایان نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔۔۔
“ہم آپ کی شادی کرنا چاہتے ہے مطلب ابھی نکاح ہو گا بس رخصتی بعد میں آپ کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد”۔۔
شاہ سائیں نے بات میں اصافہ کرتے اسے تسلی دی تھی جس پر وہ پھیکا سا مسکرائی تھی وہ جس بات سے بچ رہی تھی وہی بات اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
“ج۔جی تایا ابو پر کس سے “۔۔۔۔
وہ نظریں جھکائے بولی تھی کایان نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔۔
“فکر نا کرو آپ یہی رہے گی حارث سے ہو گا آپ کا نکاح دو دن بعد ہی “۔۔۔۔
شاہ سائیں نے ناشتا کرتے اس کی معلومات میں اصافہ کیا تھا جبکہ وہ سرد شخص لب بھینچ گیا تھا اس کا چہرہ سپاٹ تھا جبکہ حارث نے ایک نظر نور العین کو دیکھا
“ج۔جی تایا ابو ٹھیک ہے “۔۔۔۔۔
وہ فقط اتنا ہی بولی کہ نرمین بیگم اور شاہ سائیں چہک اٹھے تھے نرمین بیگم نے اس کے سر پر پیار کیا تھا ۔۔۔
“اوکے مجھے کچھ ضروری کام ہے “۔۔۔۔
حارث کہتے اٹھ گیا اور بغیر کسی کی سنے باہر چلا گیا جبکہ نور العین ابھی بھی سہمی بیٹھی تھی اسے نہیں پتا تھا وہ اپنی زندگی میں کیا کرنے والی ہے یا وہ اپنی زندگی میں کیا پائے گی آگے جا کر ۔۔۔۔۔
“کایان تم نور العین کو چھوڑ آؤ کالج “۔۔۔۔
اس کی گریجویشن کا آخری سال تھا تایا ابو کی بات سن نور کا حلق خشک ہوا اس نے ایک نظر کایان پر ڈالی جو لب سختی سے بھینچے بیٹھا تھا گلے کی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھی وہ بغیر کچھ بولے کرسی سے اٹھا تھا جب نور بھی اس کے پیچھے اٹھی۔۔۔۔
اور اس کے قدموں کے پیچھے ہی چلنے لگی تھی وہ خاموش سے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی مقابل بھی سختی کا لبادہ اوڑھے گاڑی میں بیٹھا ڈرائیو کرنے لگا تھا۔۔۔
گاڑی کی سپیڈ بڑھتی دیکھ نور العین کے حواس سلب ہوئے تھے وہ گاڑی کو فل سپیڈ میں لے گیا تھا نور نے اچانک اسے دیکھا دل مانو اچھل کر حلق میں آ گیا ہو خوف سے اسے پسینے آنے لگے تھے۔۔۔
“ک۔کایان ک۔کیا کر رہے ہے آپ آہستہ چلائے گاڑی ”
وہ اٹکتے لہجے میں لبوں پر زبان پھیرتے بولی جس پر وہ طنزیہ مسکرایا تھا۔۔۔
“میں ایسے ہی چلاتا ہوں اور مجھے فل سپیڈ ہی پسند ہے اگر تمھیں مسلہ تھا تو تمھیں نہیں آنا چاہیے تھا میرے ساتھ”۔۔۔
وہ استہزاء لہجے میں کہتا بغیر اس کی سنے سڑک پر گاڑی سر پٹ بھگا رہا تھا نور کی سانسیں سوکھ رہی تھی
“پ۔لیز آہستہ کرے سپیڈ “۔۔۔۔
وہ اس کے بھاری ہاتھوں پر ہاتھ رکھتی نم آنکھوں سے گویا ہوئی تھی جس پر کایان نے ایک سرد برفیلی نظر اس کے ہاتھوں کے بعد اس کے نازک سراپے پر ڈالی تھی ۔۔۔۔
“اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ جانا چاہیے تھا تمھیں اب اگر دوبارہ تم نے میرا دھیان بھٹکانے کی کوشش کی تو چلتی گاڑی سے باہر پھینک دوں گا تمھیں “۔۔۔۔۔
وہ دبی آواز میں غرایا کے نور خاموشی سے کھڑکی کے ساتھ سمیٹ کر بیٹھ گئی تھی وہ اس سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا بس کبھی کبھار ہی اسے بلاتا تھا مگر آج اس کا روایہ نور کو پریشان کر گیا تھا۔۔۔۔
کچھ منٹ بعد ہی وہ کالج پہنچ چکے تھے بڑی مشکل سے خود کو سمبھالے وہ گاڑی سے باہر نکلی تھی سرخ چہرہ اور پھولی سانسوں کو درست کرتی وہ کالج کے اندر چلی گئی تھی جبکہ وہ اب بھی اس کی پشت کو گھور رہا تھا جب تک وہ اندر نہیں گئی وہ یوں ہی کھڑا رہا پھر گاڑی اس کے جاتے ہی بھگا لے گیا تھا۔۔۔
•••••
“ماں آپ مجھے یہاں کیوں لائی ہے “۔۔۔۔۔
وہ بے زاری چہرے پر سجائے ایک نظر اسے دیکھتے بولا تھا جس پر نرمین بیگم نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
“بے شک نکاح ہو رہا ہے مگر کچھ رشتے دار بھی آئے گے دلہن کو کیا ہم ایسے ہی بیٹھا دے گے “۔۔۔۔
وہ ایک کپڑوں کی دوکان کی جانب جاتی بولی تھی نور ان کے ساتھ ہی تھی وہ گھر لوٹی تو نرمین بیگم اس کے ساتھ کایان کو کھینچتی مال لے آئی تھی جبکہ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ تائی امی اس کے ساتھ آئی تھی ورنہ وہ پاگل سنکی انسان پتا نہیں اسے جان سے ہی مار دیتا۔۔
“تو ماں آپ کو بھائی کو ساتھ لانا چاہیے شادی ان کی ہے میری نہیں “۔۔۔۔
وہ سنجیدگی سے بولا تھا اس کی بات وہ چونکی تھی اپنی زندگی کا سوچ اس کی دھڑکنیں بڑھی تھی۔۔۔
“تو اسے باہر جانا ہے نا اس لیے وہ ان سب کاموں میں لگا ہے ویسے بھی ہم اپنی دلہن ابھی نہیں دیکھائے گے دولہے کو”
نرمین بیگم کھلکھلا کر بولی کے کایان کے چہرے پر سرد مہری چھائی وہ فون میں گھس گیا جبکہ ایک نظر اٹھا کر نور کو دیکھا جس کے چہرے پر سرخی سے گھل گئی تھی وہ پھر سے فون میں لگ گیا تھا۔۔۔۔
شاپنگ کرتے وہ شام گے گھر لوٹے تھے گھر میں تیاریاں ہو رہی تھی جب کے وہ کمرے میں بند تھی اس کے امتحانات بھی نزدیک تھے اور اوپر سے ایک نئے رشتے کا احساس سوچ کر ہی دل کی بری حالت ہو رہی تھی۔۔۔۔
ایک دن تھا درمیان میں وہ اپنے نام کے ساتھ جی لینا چاہتی تھی بس پھر اس کا نام کسی دوسرے شخص کے نام کے ساتھ جڑ جانا تھا اس نے کبھی اس گھر کے دونوں لڑکوں کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا مگر پھر بھی وہ اب اس گھر میں رہے گی یہی بات اس کی خوشی کی اصلی وجہ تھی۔۔۔
•••••
نکاح کا دن بھی آن پہنچا تھا گولڈن اور زنک امتیاز کے لہنگے میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی وہ کمرے میں گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی تھی دلی کی دھڑکنیں منتشر ہوئی پڑی تھی نفاست سے کیا گیا میک اپ اور ہلکی پھلکی جیولری میں وہ نازک حسینہ آج اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت مقابل کو چاروں خانے چت کرنے کا ہنر رکھتی تھی۔۔۔
وہ ابھی اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کے تایا ابو کے ساتھ کچھ رشتے دار مرد اور اس کی تائی امی قاضی صاحب کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے وہ لب کچل کر رہ گئی تھی جب قاضی صاحب کے لفظوں نے اس کے چودہ طبق روشن کیے تھے۔۔۔
“نور العین شاہ آپ کا نکاح کایان شاہ کے ساتھ سکہ رائج الوقت پانچ لاکھ حق مہر طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے”
قاضی صاحب کے الفاظ تھے کے سیسہ جو اس کے کانوں میں انڈیلا جا رہا تھا وہ ساکت ہو گئی تھی کچھ سانحے اسے کچھ بھی سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔۔۔
تائی امی نے لب بھینچے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں گھونگھٹ کے پار دیکھنے لگی تھی۔۔۔
وہ سرد سی آنکھوں والا شخص وہ اس کے ساتھ کیسے جڑ سکتی ہے وہ تو اس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرنے والا تھا اس کا سرد سرسراتا لہجہ نور کے کانوں میں گونجا تو اس نے جھرجھری سی کی تھی۔۔۔
تائی امی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا تھا وہ سہم گئی تھی۔۔
“ق۔قبول ہے “۔۔۔
تین مرتبہ وہی الفاظ دوہراتے وہ نکاح نامے پر سائن کر گئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرا وجہ وہ عجیب شخص تھا جس نے سیدھے منہ کبھی اس سے بات تک نہیں کی تھی اور آج وہ اس کے وجود اس کی روح پر حکمرانی کرنے پر تلا تھا۔۔۔
نکاح کی تقریب ختم ہوئی تائی امی فوراً اس کے کمرے میں آئی جو نڈھال سی بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے نیم دراز تھی آہٹ پر کر نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔۔
“ت۔تائی ا۔امی ی۔یہ سب “۔۔۔
حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے وہ اٹک کر بولی تھی جس پر تائی امی نے شرمندگی سے اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔
“حارث بغیر کسی کو کچھ بتائے انگلینڈ چلا گیا نجانے وہ کب کی تیاری کیے بیٹھا تھا اس کا ایک خط ملا ہمیں وہ اس نکاح پر راضی نہیں تھا غلطی ہماری ہے جو ہم نے اسے فورس کیا کے تم اس گھر میں ہی رک جاؤ۔۔۔
ہمیں معاف کر دو بیٹا مگر اس وقت کوئی اور راستہ نہیں تھا تمھاری توہین شاہ سائیں کو گوارہ نہیں تھی تبھی کایان کے ساتھ تمھارا نکاح ہو گیا “۔۔۔۔۔۔
تائی امی شرمندگی سے نظریں جھکائی بولی تھی وہ لب بھینچ گئی ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھیکا سا مسکرائی تھی۔
“کوئی بات نہیں “۔۔۔
تائی امی نے تڑپ کر اسے گلے لگایا تھا وہ اسے بہت چاہتی تھی اور اب اس سے شرمندہ بھی تھی۔۔
“آپ پلیز ایسے مت روئے آپ کی کیا غلطی تائی امی ویسے بھی مجھے فرق نہیں پڑتا نکاح کایان سے ہوا ہے تو کیا ہوا”۔۔۔
وہ اپنے لفظوں سے ان کی شرمندگی دور کرنا چاہتی تھی نرمین بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا حارث گے انتہا غصہ آیا تھا انہیں وہ نور العین کو اٹھاتی کایان شاہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی اسے کمرے میں چھوڑ وہ دعائیں دیتی وہاں سے چلی گئی جب نور العین نے سامنے دیوار پر دیکھا اس کی تصویر تھی وہاں مگر وہی سرد بھری نظریں مغرور سی ناک اور گردن کی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھی۔۔۔
نور کبھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ یہ گردن پر نیلی نسیں اس شخص کی اتنی ابھری ہوئی ہی کیوں رہتی ہے۔۔۔
دروازہ کلک کی آواز سے کھلا تو نور کا سانس سوکھا دل سوکھے پتے کی مانند کانپ اٹھا تھا بوٹوں کی آواز اور دل کی دھڑکنیں ایک ہی طرح دھڑک رہی تھی۔۔۔
ستم گر پیچھے سے آتا ہاتھ بڑھا کر اس کا دوپٹہ کھینچ زمین پر پھینک گیا تھا نور کے گلے میں گلٹی ابھری اس کا سوگوار حسن دیکھ وہ طنزیہ مسکرایا جبکہ نور خود میں سمیٹ گئی۔۔۔
بغیر کچھ بولے اس کی یہ حرکت نور کو جلا۔کر خاک کرنے کے برابر تھی۔۔۔
“تمھیں فرق نہیں پڑتا نا تمھارا نکاح میں سے ہوا ہے “۔۔
اس کے پیٹ پر بھاری ہاتھ رکھتے وہ اس کے وجود کو اپنی جانب کھینچتا کان کے قریب سرسراتے لہجے میں بولا کہ نور کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔
یعنی وہ اس کی باتیں سن چکا تھا گلے میں گلٹی ابھری تھی وہ گرم سانسیں اس کی گردن ہر چھوڑتا جواب کا منتظر تھا۔۔
“و۔وہ “۔۔۔۔
اس کی قربت پر وہ اٹک کر رہ گئی تھی جو اسے مزید خود کے قریب کر گیا تھا وہ اس سے ایسے کیوں بات کر رہا تھا جیسے اس کی باتوں سے اسے کوئی فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
“مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی نا تم “۔۔۔
اس کے نازک سراپے کو خود کی جانب موڑتے وہ اس کے بازو پر گرفت مظبوط بناتا بولا تھا نور نے سہمی نظروں سے اس کی جانب دیکھا اس کے چہرے پر چھائی کرختگی سے اس کا دل کسی نے بری طرح میٹھی میں جکڑا تھا جیسے۔۔۔
“افسوس ہوا تمھاری محبت تم سے دور ہو گئی پر اب کیا کیا جا سکتا ہے “۔۔
دانت پیستے وہ بظاہر افسوس سے بولا مگر اس کے لہجے میں کچھ تو تھا کے نور العین کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا اس نے۔۔۔
“۔م۔میں ایسا نہیں چاہتی تھی وہ۔ آپ سے نکاح کا مجھے پتا نہیں تھا “۔۔۔۔
وہ اٹکتے لڑکھڑاتے لہجے میں چہرے پر خوف لیے بولی تھی اس کی بات مقابل کو انگاروں پر گھسیٹنے کو کافی تھی دل جل کر راکھ ہوا تھا۔۔۔
“نجانے کب وہ اس سہمی پری سے محبت کرنے لگا تھا مگر اس کی شادی اپنے بڑے بھائی سے طے پانے پر اور پھر نور کی رضا مندی نے اسے تپتی بھٹی میں جھونک دیا تھا اوپر سے اس کی وہ گوہر افشانی کے کایان سے شادی پر اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
“پتا ہوتا تو ؟”
اسے کمر سے تھامے وہ اس کے کانوں میں موجود جھمکوں کو اتارنے لگا تھا اس کی آنکھوں میں الگ ہی تپش تھی جبکہ سرد انگلیوں کا لمس وہ اپنے کان پر محسوس کرتی جی جان سے کانپی تھی۔۔۔
جو اس کے دوسرے کان کا بھی جھمکا اتار چکا تھا شدید غصے کی لہر اس کے وجود میں سمائی جیسے وہ محبت کرتا تھا وہ لڑکی کسی اور کے لیے تیار ہوئی تھی کیا اس کی آنکھوں میں موجود خاموش محبت کو وہ کبھی دیکھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔
“ت۔و میں انکار کر دیتی “۔۔۔۔
وہ پھر سے گستاخی کرتی اس کے غصے کو مزید ہوا دے گئی تھی وہ سرد نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا دل میں تکلیف سی اٹھی وہ اس کے بھائی سے محبت کرتی تھی اور اب وہ اس کی بیوی تھی۔۔۔
وہ اس کے بالوں کو جوڑے سے آزاد کر گیا کے لمبے گھنے بال اس کی پشت پر لہرا گے وہ جھکتے گہرا سانس بھرتا اس کے حواس سلب کر گیا تھا۔۔۔۔
“آپ ۔یہ کیا کر رہے ہے”۔۔۔
حیرت سے پھیلی آنکھوں سمیت وہ اس کے وجود کو خود کے پاس دیکھے عجیب سی جزبوں سے روشناس ہوئی تھی وہ گہرا مسکرایا تھا۔۔۔
“تم حارث سے محبت کرتی تھی پر اب اس کا خیال اپنے اس چھوٹے سے ذہن سے نکال دو کیوں کہ میں تمھارا شوہر ہوں اور مجھے گوارہ نہیں کے میری بیوی کسی قیمت پر کسی اور کے بارے میں سوچے “۔۔
اس کے کندھے پر تشنہ لب رکھتے وہ بھاری سرد سرگوشی نما آواز میں بولا کہ نور العین کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔
کیا مقابل شخص اس کی ذات کو حقیر جان رہا تھا کہ وہ ٹھکرائی گئی ہے تو وہ ہمدردی کی بنا پر اسے سمیٹ لے۔۔۔۔
“ا۔ آپ دور رہے مجھ سے “۔۔۔۔
وہ زور سے اسے دھکا دیتی بولی کے اس کی آنکھوں میں آیا خمار اب سرخی میں بدل گیا تھا ۔۔۔۔
کس کے لیے تیار ہوئی تھی وہ اور اب کس کے نام سے جڑ گئی تھی وہ کیا اس کے وجود کو کوئی کھلونا سمجھا تھا اس کے بھائی نے جو ایک بھائی نے پھینکا اور دوسرے نے اٹھا لیا تھا۔۔۔
“نور “۔۔
وہ یک دم چینخا کہ وہ خود میں سمیٹی تھی بغیر دوپٹے کے وہ اپنے حسن سمیت اس کے سامنے موجود تھی۔
“میں پاگل نہیں ہوں آپ کے بھائی نے مجھے دھوکہ دیا ہے اور اب آپ ازالہ کر رہے ہے اس چیز کا “۔۔۔۔
وہ نفرت چہرے پر سجائے بولی کہ کایان کے دل کو کچھ ہوا وہ بری طرح پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا جھکتے سے اس کے نازک وجود کے گرد جاتے حصار تنگ کیا کہ وہ اس اچانک حرکت پر حیران رہ گئی تھی۔۔۔
“میں ازالہ اپنی غلطیوں کا نہیں کرتا تم میری محبت کو ازالہ بول رہی ہو “۔۔۔۔
وہ دانت کچکاتے اس کی کمر پر گرفت سخت تر کرتا غرایا تھا نور کی آنکھوں میں نمکین پانی ابھرا تھا۔۔۔۔
“تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب بولنے کی میں تمھاری زبان کھینچ لوں گا “۔۔۔۔
وہ پوری شدت سے چلایا ایک تو یہ لڑکی اس کے سامنے کسی اور کی بننے جا رہی تھی اوپر سے اس کی چلتی زبان اس کا دماغ گھومانے کو کافی تھی۔۔۔
جبکہ نور اس اچانک اظہار پر پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی کایان شاہ اور اس سے محبت جھوٹ وہ تو کبھی اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔۔۔۔
“آپ ۔ج۔جھوٹ بول رہے ہے “۔۔۔
وہ بے یقینی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی جس پر وہ اسے غصے سے گھورنے لگا تھا نازک ہاتھ اٹھا کر دل کے مقام پر رکھا اس کی دھڑکنیں وہ صاف سن سکتی تھی۔۔۔
“میں خاموش ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کے میرے سینے میں جل رہی آگ کم ہو گئی ہے ہمیشہ سے تمھیں چاہا ہے سوچا تھا خاموشی سے تمھیں پا لوں گا مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بھائی آ جائے گے اور تم ۔۔۔ تم بھی تو ان کی بننے چلی تھی ہاں بھی کر دی اور کتنی خوش بھی تھی میری آنکھوں میں غصہ ، تڑپ چاہت تمھیں کچھ نظر نہیں آیا کیا نور العین مجھے اظہار محبت کرنا پسند نہیں “۔۔۔۔
وہ دھیمے مگر مظبوط لہجے میں بولتا اسے خاموش کر گیا تھا نور نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں بغیر کسی خوف کے دیکھا تھا وہ سچ ہی تو بول رہا تھا اس کی شادی اور رضا مندی کا سن وہ کتنا زیادہ برا روایہ اختیار کر گیا تھا اس کے ساتھ۔۔۔
” حارث کے نام پر تمھارے چہرے پر چھائے رنگوں نے مجھے بہت تکلیف دی ہے وہ رنگ میں ہمیشہ خود کے نام کے ساتھ محسوس کرنا چاہتا تھا تمھارے چہرے پر “۔۔۔۔
وہ جھکتے بے قابو ہوتے اس کے گال پر لب رکھ گیا کہ وہ ساکت سی ہو گئی تھی اس کی پناہوں میں وہ انچ بھر بھی نا ہلی تھی۔۔۔۔
“آخر بھائی سے اتنی چاہت کب ہو گئی تمھیں “۔۔۔
اب کی بار وہ اس کی دوسری گال ہر دانت گاڑھتے بولا جو اس کے شدید جذبات کر ٹھیس پہنچنے کی نشانی تھا نور نے تڑپ کر اس کے عمل کو برداشت کیا تھا وہ غلط سوچ رہا تھا یا یوں کہنا بہتر تھا وہ دونوں ہی غلط سوچ رہے تھے ایک دوسرے کے بارے میں۔۔۔
“بولو زبان نہیں چل رہی تمھاری کیا مجھ سے شادی سے تمھیں واقعی ہوئی فرق نہیں پڑتا “۔۔۔
وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا لب اس کی گردن پر رکھتے وہ وہاں اپنا لمس چھوڑتے اس کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔۔
“ا۔اپ غلط سوچ رہے ہے “۔۔۔۔
وہ پریشان کھڑی تھی وہ کیسے بتاتی اسے کے وہ جملے تو بس تائی امی کو شرمندگی سے بچانے کے لیے بولے تھے۔
“سچ کیا ہے پھر بولو مجھے جاننا ہے “۔۔۔۔
اس کے بازو کو اپنے گلے میں ڈالے وہ اس کی کمر پر گرفت سخت کرتے آبرو اچکائے بولا تھا شاید اتنے سالوں کی خاموش کا حساب وہ آج ہی بے باک کر دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔
جذبات سے عاری وہ شخص چاہتا تھا کہ ان کے رشتے کی شروعات اسی کی محبت سے نا کہ اس کی بیوی اس کے بڑے بھائی کی محبت سے اس رشتے کی شروعات کرے۔۔
“میں نے بس تائی امی کو تسلی دینے کے لیے بولا تھا میں کسی کو پسند نہیں کرتی حارث کو بھی نہیں میرے لیے یہی بہت تھا کہ میں اسی گھر میں رک جاؤں گئی تایا ابو اور تائی امی کے پاس اس لیے میں نے حامی بھر لی تھی آپ غلط سمجھ رہے ہے حتی کے میں آپ کو بھی پسند نہیں کرتی تھی”۔۔
وہ نظریں جھکائے اس کے ہر سوال کر جواب دے رہی تھی مگر اس کی آخری بار پر اس تھوڑی پکڑ اس کا چہرہ اوپر کیا جو اس کی سرخ ہوتے چہرے سے خائف ہو گئی تھی۔۔۔۔
“پر مجھے تم سے محبت ہے کئی سالوں سے “۔۔۔
اس کی چن پر گرفت سخت ہوئی تو وہ سسک کر رہ گئی تھی۔۔
“چلو تمھیں بتایا جائے “۔۔۔۔
جھٹکے سے اس کے نازک وجود کو بازوؤں میں اٹھائے وہ بیڈ کی جانب بڑھا جبکہ اس کی اچانک کارستانی پر وہ گھبرا گئی تھی دل بری طرح دھڑکا تھا۔۔
“م۔مجھے نہیں شوق جاننے کا “۔۔۔۔
وہ گڑبڑا کر بولی تھی جب وہ اسے بیڈ پر لٹاتا اسے دیکھنے میں محو ہو چکا تھا۔۔۔۔
“پر مجھے ہے “۔۔۔۔
جھکتے وہ نرمی سے اس کی آنکھوں پر لب رکھتا اسے دیکھنے لگا جو خود میں سمٹی تھی پہلی بار دھنک سے رنگ اس کے چہرے پر بکھرے وہ صرف کایان کے لیے ہی تھے وہ محظوظ ہوا تھا یہی تو وہ چاہتا تھا۔۔
“پتا ہے کتنی محبت کرتا ہوں تم سے میں “۔۔
اس کے نازک لبوں کو انگوٹھے کی مدد سے سہلاتے وہ خوشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا جو اس کی قربت پر سرخ ہو کر رہ گئی تھی۔۔
“جب تمھیں کوئی اور دیکھتا ہے تو دل کرتا ہے آنکھیں نکال لوں میں اس کی اور اس وجود کو جلا دوں “۔۔۔۔
وہ شدت سے اس کے نازک لبوں پر جھکا اپنی تشنگی مٹا گیا تھا کہ نور نے زور سے آنکھیں میچی جبکہ وہ اس کے وجود میں مکمل بس جانا چاہتا تھا۔۔۔۔
وہ اس سے الگ ہوتا اس کے ساتھ ہی نیم دراز ہو گیا تھا موبائل فون اٹھا کر کسی کو کال ملائی اس پر کمفرٹر مکمل اوڑھ دیا وہ اس کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی مگر دل تو اس ستمگر کی قربت پر ہی نڈھال ہوا پڑا تھا۔۔۔
“بھائی “۔۔
اس کی آواز پر اس نے سکرین کی جانب دیکھا جہاں پر حارث کا مسکراتا چہرہ نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔۔
“شادی مبارک “۔۔۔۔
وہ لب دبائے بولا تو کایان نے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا۔
“شکریہ بھائی “۔۔۔
وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگا جبکہ نور العین ہونقوں کی طرح ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی ۔۔
“خدا حافظ مجھے لیٹ ہو رہا ہے “۔۔۔۔
وہ کال رکھ گیا تھا بے شک حارث ہی نا کہی نور العین کو پسند کرتا تھا مگر جس دن ان کی شادی کی بات طے ہوئی تھی وہ کچھ کام سے کایان کے روم میں گیا تھا ۔۔۔۔!
جہاں وہ غمگین سا صوفے پر لیٹے ہوئے تھا وہ آہستگی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں اس کے موبائل پر جگمگاتی نور کی تصویر کو دیکھ وہ پل میں سب سمجھ گیا تھا وہ تو بس کہی نا کہی اسے پسند کرتا تھا مگر شاید اس کا بھائی ان سب چیزوں سے اوپر جا چکا تھا۔۔۔
تبھی وہ خود ہی راستے سے ہٹ گیا اور پھر نکاح ہو جانے کے بعد ہی کایان سے رابطہ کر کے اسے خوب ڈانٹا تھا کہ اس نے پہلے کیوں نہیں بتایا کم از کم وہ شاہ سائیں کی بات پر حامی جا بھرتا اور جلد باہر چلا جاتا تب کایان دھیما سا مسکرا دیا تھا ۔۔۔
“یہ سب کیا ہو رہا ہے “۔۔۔۔۔
نور نے اچھنبے سے اسے دیکھتے استفسار کیا تھا جس پر وہ اس کے ساتھ لیٹتا کھینچ کر اسے اپنی باہوں میں بھر گیا کہ وہ کٹی ڈال کی طرح اس کے سینے پر آ کر ٹک گئی تھی ۔۔۔۔۔
“بتاتا ہوں تمھیں “۔۔۔۔
اس کی گردن میں منہ دیے وہ بھاری سرگوشی کر گیا کہ اس کی جسارت ہر وہ ٹھٹھک کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
پھر کایان نے ساری بات اسے بتائی وہ شرمندہ ہوئی تھی نا حق ہی اس نے حارث کو غلط سمجھا تھا جبکہ ساری غلطی کایان کی تھی اسے کم ازکم ایسا لگا ۔۔۔۔۔
“اب تم صرف میری ہو “۔۔۔۔۔
وہ اسے خود میں بھینچے بولا تھا وہ خفگی سے اسے گھور گئی تھی حارث سے محبت نہیں تھی اور وہ اس شخص کے ساتھ لکھ دی جا چکی تھی جو اس سے بے انتہا محبت کرتا تھا مگر وہ ناراض تھی اس سے جس کی وجہ سے تائی امی کو بھی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی ۔۔۔
“مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا “۔۔۔۔
وہ اٹھنے کی ناکام سی کوشش کرتی بولی کہ اس کی بات پر وہ اسے سرد نظروں سے گھور گیا جیسے باز رہنے کو بولا گیا ہو۔
“آپ کی وجہ سے سب ہوا تائی امی تایا ابو شرمندہ ہوئے مجھ سے اداس ہوئے وہ آپ کی وجہ سے حارث بھائی کے لیے غلط سوچا میں نے “۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکائے بولی ان تمام باتوں میں اس کا پسندیدہ لفظ نور کا حارث کے لیے بھائی لفظ استعمال کرنا تھا نجانے کیوں وہ خوش تھا کہ نور حارث کو بھی پسند نہیں کرتی تھی مطلب وہ اسے خود سے محبت کرنے پر اکسا سکتا تھا ۔۔۔۔
“مجھے تمھاری بہت قریب رہنا ہے خاموشی کے لیے معذرت خواہ ہوں مگر خوش ہوں کے پہلی رات ہی سب کچھ حل ہو گیا کوئی غلط فہمی نہیں رہی ورنہ اگر مجھے ایسا لگتا کہ تم حارث کو پسند کرتی ہو تو میں خود کو مار کی لیتا ماں بابا سے میں بات کر لوں گا “۔۔۔۔
اس کے چہرے سے بال ہٹاتے بولا تھا جس پر وہ اس کی بات پر اٹک گئی تھی کیسا انسان تھا کبھی اسے بھنک تک نہیں ہونے دی کہ اتنی زیادہ محبت کرتا ہے وہ اس سے اور اب کیسے یہ الفاظ بول رہا تھا ۔۔
وہ خاموش ہوتی اس کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی کچھ بھی کہنا ہی فضول تھا اگر اسے اب کسی کو پسند کرنا ہی تھا تو کیوں نا اپنے شوہر کو کیا جائے وہ اس کے گرد حصار تنگ کر گیا تھا ۔۔۔
“میں ہمیشہ خوش رکھو گا تمھیں نور تم نہیں جانتی کتنا خوش ہوں تمھیں پا کر میں “۔۔۔۔
اس کے ماتھے پر عقیدت بھرا لمس چھوڑے وہ اس کو دیکھنے لگا تھا جو بغیر کسی منت سماجت کے اس کی جھولی میں ڈال دی گئی تھی شاید اس کی سچی محبت کا اثر تھا ۔۔۔۔۔
“آئی پرامس “۔۔۔۔
اسے دیکھتے وہ دھیمے انداز میں بولتا نرمی سے اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھو گیا تھا اس بار اس کے عمل میں نرمی تھی وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کے نازک وجود کو ایسے ہی خود کے نیچے چھپا گیا تھا جبکہ وہ خود کو اس کے سپرد کر گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ خوش تھی کہ ان کا رشتہ غلط فہمی سے شروع نہیں ہوا تھا کیوں کہ غلط فہمی کا حل بات کرنے سے نکلتا ہے دل میں چھپانے سے نہیں ۔۔۔۔
وہ اس کے ہونٹوں کو آزاد کرتا اپنی محبت اس پر نچھاور کرتا اس کی کان کی لو کو لبوں سے چھو گیا تھا وہ شرم سے اس کے وجود میں سمٹی تھی جب اس نے نور کے گرد حصار تنگ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں خوش تھے یہی بہت بڑی بات تھی جبکہ نور اس وجہ سے بھی خوش تھی کہ کم از کم وہ شخص جو سرد سا روایہ رکھتا ہے اب سیدھے منہ اس سے بات تو کیا کرے گا نا۔
بے ساختہ اس کا اظہار محبت یاد آیا تو وہ اس کے سینے سے سمیٹ گئی تھی وہ گہرا مسکرایا تھا اس کے وجود کو اپنے اندر بسائے وہ تمام باتیں بھول چکا تھا ۔۔۔
•••••
ختم شد