Mere Mehrbaan by Faiza Batool Complete Novel PDF Download
Mere Mehrbaan
ابھی یہاں کلک کر کے ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں۔ جہاں آپکو ملیں گے روزانہ نئے نئے اور مزے مزے کے ناولز۔
Mere Mehrbaan Novel by Faiza Batool Complete PDF Download
” ماں میری کچھ چیزیں مس ہیں پلیز دیکھئے گا۔ دیر ہورہی مجھے” وہ جو سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے حیدر کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
” دیر ہورہی ہے کہاں جانا ہے آپ کو؟” دادی حضور کے سوال پر فاطمہ نے بھی حیدر کی طرف دیکھا۔
” واپس جانا ہے دادی حضور ہے” حیدر ان کے پاس بیٹھا۔
” اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی حیدر اتنے عرصے بعد تو آپ کو گھر کا سکون میسر ہوا ہے اور اب اتنی جلدی جارہے ہیں” دادی حضور اداس ہوتے بولی۔
” دادی حضور کام کا مسئلہ ہوگیا ہے اسی لیے جانا ہے” ان کا ہاتھ تھام کر محبت سے کہا۔
” تو کام آپ کے بغیر حل نہیں ہوگا” بابا جان نے پوچھا۔
” وہاں کا اونر میں ہوں بابا تو میرے بغیر تو حل نہیں ہوسکتا ناں لیکن آپ لوگ فکر نہیں کریں میں جلد چکر لگاؤں گا ماں پلیز دیکھ دیجئے زرا” ان سب سے کہتا وہ ایک بھی نظر فاطمہ پر ڈالے واپس جا چکا تھا۔
” فاطمہ جاؤ بیٹے دیکھ دیجئے انہیں جو نہیں مل رہا” دادی حضور کی بات پر وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیئے بغیر اٹھی اور کمرے کی جانب چل دی۔
” جی جی میں صدقے میں آج ہی آ جاؤں گا آپ کے پاس” دروازے پر دستک دینے سے پہلے ہی دروازہ کھولا ہوا تھا جس سے حیدر کی آواز فاطمہ کی سماعت میں پڑی تو حیرت زدہ ہوتی اندر داخل ہوئی۔
” میری جان پکا پرامس آج ہی آ جاؤں گا۔” فاطمہ کو خود کی جانب متحیر نظروں سے دیکھتا پایا تو حیدر نے فون کان سے ہٹایا۔
” وہ دادی حضور نے بھیجا ہے آپ کی مدد کے لیے کیا نہیں مل رہا ؟ ” کمرے میں بکھرا پھیلاوا سمیٹتے ہوئے وہ خفت سے بولی۔
” جو گم ہوا تھا وہ تو مجھے مل گیا” فاطمہ کے من موہنے چہرے کو دیکھتے وہ بے ساختہ بڑبڑایا تھا۔
” جی ؟”
” آ کچھ نہیں میں نے جسٹ آپ سے معذرت اور آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا” حیدر موبائل پاکٹ میں ڈالتے اس کے سامنے آیا۔
” کس لیے ؟” فاطمہ کے سوال پر حیدر نے الماری سے ایک سرخ چھوٹے سے باکس کو نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔
” معذرت اس لیے کہ آپ کو وقت پر نہیں دے پایا اور شکریہ اس لیے کہ ایک بھائی کا مان بچا لیا” فاطمہ کے باکس کھولنے پر ایک بہت ہی خوبصورت ہارٹ شیپ پینڈنٹ برآمد ہوا۔ فاطمہ نے سراہتے ہوئے چہرہ اٹھایا۔ حیدر کی زبان بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
” بہت خوبصورت ہے لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی”
” تحفے ضرورت کو دیکھ کر نہیں دیئے جاتے بلکہ دینے والے کے خلوص اور محبت کو دیکھ کر دیئے جاتے ہیں۔ اور ویسے بھی میں آج جارہا ہوں نجانے کب واپسی ہو اس لیے مجھے اطمینان رہے گا کہ میں نہیں تو میرا دیا تحفہ ہی آپ کے دل کے انتہائی قریب رہے گا۔ زندگی رہی تو واپس لوٹ کر ضرور آؤں گا اپنا بہت خیال رکھئے گا۔” اس کی پیشانی پر اپنا لمس چھوڑتے وہ سوٹ کیس اٹھاتا کمرے سے نکل گیا اور فاطمہ اس کی دوری پر سانس روکے کھڑی رہ گئی۔ ہاتھ میں اٹھائے پینڈنٹ کو دیکھا تو ایک مدھم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔