Jinn Aur Nanhi Saba Novelit by Ghazal Noor Shaikh

  ناولٹ: جن اور ننھی صباء
رائیٹر: غزل نور شیخ

گاؤںمیں رہنے والی لڑکی صباء کی کہانی۔۔ صباء جب تین سال کی تھی۔ تو صباء کے ابو ریاض نے صباء کی منگنی ایک دور کے رشتہ دار اسد سے کر دی، جو کے اس وقت بیس سال کا تھا پر ریاض کے بقول، مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ کسی کو اس رشتے سے کوئی اعتراض نہی تھا۔ صباء کی ماں میں بھی سیدھی تھی۔۔ صباء بارہ سال کی ہوئی تو باپ کو شادی کی جلدی پڑنے لگی اس دن بھی ریاض صباء کی ماں سے کہ رہا تھا صباء کے منگیترکو پیغام بھجوا یا ہے اپنی جورو کو اور کتنا بوجھ بنائے گا مجھ پر۔ ریاض آپ سمجھے اس بات کو۔ صباء کو دیکھےتو سہی، کمزور کتنی ہے۔۔۔ ہمارے گھر نہ اتنا کچھ کھانے کو آتا ہے کہ اسے اچھا کھلائیں۔۔کبھی کم از کم پندرہ کی تو ہونے دے۔کہیں مر مرا نا جائے، ماں ہوں ڈرتی ہوں۔صفیہ نے کہا۔ نہیں مرتی، گاؤں میں کتنی مری ہیں لڑکیا جو تم کہ رہی ہو نہ کرو شادی۔۔ پہلے ریاض کو اب عورت کے جواب دینے پے غصہ آرہا تھا۔ پر میں ابھی نہیں کرو گی صباء کی شادی۔۔۔ اور وہ مرنے جوگا اسد ایک بیوی تو کو مار چکا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔ صفیہ پر اس بار شاید ریاض کا فیصلہ اٹل تھا۔۔۔ ہے کہاں تیری بیٹی۔۔ وه اپنی دوستو کے ساتھ گئی ہے۔۔ بتا کر گئی ہے۔۔ بارہ سالہ صباء نہر کے پاس آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے وه جنگل کی طرف چلے گئی۔ اس کی دوست ثمینہ اور کنول اس کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔۔ الله جانے ثمینہ اور کنول کہاں رہ گئیں۔۔ وه مجھے تلاش کرنے کے لیے کیو نہیں آ رہی۔۔۔صباء تھوڑی دیر بعد سہیلیوں کو آوازیں دینے لگی، پر ثمینہ اور کنول پہلے ہی گھر جا چکی تھی۔ جیسے اچھے اور برے انسان ہوتے ویسے ہی اچھے اور برے جنات بھی ہوتےہیں۔ ایسا ہی سیاہ سورج لے کر وہ دن صباء کے لیے چڑھا تھا۔ جب گاؤں کے قریب ہی جنگل میں کچھ جنات نے بسیرا کیا، وہ اپنے قبیلے سے بھاگ کر آئے تھے۔ کیوں کے ان جنات کے گناہوں کی اک لمبی فہرست تھی۔ جس میں ہر طرح کا گناہ موجود تھا اور جس فہرست میں اک اور گناہ کا اضافہ ہونے والا تھا۔ ثمینہ۔۔ اری ثمینہ۔۔ کہاں رہ گئی ہے تو کنول۔ دیکھو یہ کوئی مزاق نہیں ہے۔۔ کہاں ہو تم دونوں ، گھر بھی جانا ہے،م اں انتظار کر رہی ہوگی۔۔ صباء آواز لگاتے لگاتے ایک کمرے میں آ گئی تھی۔۔ یہی چھپی ہونگی، یہ ہی سوچ کر وہ آگے بڑھی، ہر طرف ہلکہ کمرے میں اندھیرا تھا، بس صباء کی آواز تھی۔ پر وہاں کچھ اور بھی تھا جنہوں نے صباء کی آواز سن لی تھی۔ پر وہ ایک سے ذیادہ تھے۔۔ کہا جاتا ہے کے جنات عاشق ہو جاتے ہیں۔۔۔ اچانک ہوا چلنے لگی، صباء جیسے ہی واپس پلٹی کے ہوا آندھی میں بدل گئی۔۔اور ہوا میں چیخوں کی آوازیں بھی آنے لگیں، آندھی صباء کو اٹھا اٹھا کر مارنے لگی اور چیخوں کی آوازوں نے ماحول کو اور بھیانک بنا دیا، اچانک ان جنات میں سے ایک نے صباء کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور اک جن اس کے پیچھے نمودار ہوا۔صباء نے بھاگنا چاہا لیکن بے ہوش ہو گئی۔ پر اس سے پہلے ہی کسی نے اسے بلند آواز میں پکارا جنات نے اپنی شیطانیت کو جاری رکھنا ملتوی کیا، صباء جب ہوش میں آئی۔۔۔ کمرے سے باہر نکلی۔۔ وہ بہت خوف ذدہ تھی اسے کسی اجنبی کا سہارہ بھی نعمت لگ رہا تھا۔۔اس کو کوئی اجنبی دکھائ دیا۔۔۔بھائی بھائی۔۔۔جی جی تم کون ہو۔تمہارے جوتے کہا ہے۔۔ اس اجنبی نے پوچھا۔ اب ایسا کرو دھیان سے چلو نظر کچھ آ نہیں رہا۔ صباء کو واقعی کچھ نظر نہی آرہا تھا۔۔ وه اجنبی نے بازو سے پکڑا۔۔۔ صرف اس لیے کے وہ گرے نہیں۔ صباء تو بچی تھی، خوف ذدہ ہے۔ آپ کو قرآن کی کوئی آیات آتی ہے کیا؟۔۔نہیں۔۔میرے ابو کہتے ہے۔ پڑھ لکھ کر کیا کرےگی، پر ہاں میں نے اپنی امی سے سے پہلے دو کلمے سیکھے ہیں۔۔سناؤں؟ صباء کچھ اس سے سب چھپا گئی۔ ہاں سناؤ صباء صباء جب سنا چکی۔ آپ کو پتا ہے۔۔۔ جب ہم کسی مشکل میں ہو تو قرآن کی تلاوت کو پرھنے سے مصیبت ٹل جاتی ہے۔۔ وه اجنبی کہتا میں آپ کے ابو سے بات کرو گا ، آپ کو پڑھنے دینگے صباء بے دھیانی میں بس اس کے ساتھ چل رہی تھی کے اچانک اس سے اپنا بازو چھڑانے لگی۔ وه اجنبی دیکھ کے بہت ڈر گیا کیوں کے اس نے بے دھیانی میں صباء کا ہاتھ مضباطی سے پکڑا تھا۔۔۔۔۔ گھر جا کر اس اجنبی نے صباء کے ابو سے بات کی ۔۔۔آپ اس بچی کو پڑھنے دے ۔۔ریاض چلایا۔۔۔۔۔بات سونو تمہارا اتنا شکریہ ۔۔۔۔کے تم میری بچی کو لے کر آۓ ہو ۔۔۔۔ عورت ذات ہے گھر بٹھا کے رکھوں کیا۔۔۔۔اس لئے میں اب اس کی شادی کر دو گا ۔۔۔ دیکھے انکل صاھب وہ چھوٹی ہے وه اجنبی آدمی ڈر گیا کے اسکی شادی نہ سے کر دے۔۔۔یہ تو ابھی چھوٹی اور اتنی کمزور ہے ۔۔۔۔ اچھا انکل میں بہت امیر باپ کا بیٹا ہو میں ہر ماہ آپ کو خرچ بھیجو گا ۔۔آپ اس کو زیادہ پڑھانا۔۔۔ یہ بچی آپ پر بوجھ بھی نہیں بنے گی ۔۔۔ریاض مان گیا لالچ میں آگیا،جلدی سے بولا بیٹا اپنا نام تو بتا ۔۔۔۔ انکل میں پاس شہر سے آیا ہو ۔۔۔حیدر نام ہے میرا ۔۔۔۔ ریاض اب اس سے بہت اچھے سے بولنے لگ پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا بیٹا کرتا کیا ہے تو ۔۔۔۔ انکل میں نے میٹرک کا امتہان پاس کیا ہے ۔۔۔اب یہاں پاس میں میرا مدرسہ ہے جہاں سے میں حفظ کر رہا ہو ۔۔۔ چل پتر اللہ کامیاب کرے ۔۔۔۔ ،اب تو عشاء کی اذانیں بھی شروع ہو چکی تھی ۔حیدر گھر جانے کے لیے صحن میں نکلا تو صباء کھڑی تھی، صباء کے پاس جا کر بولا ۔۔۔اب زیادہ تعلیم حاصل کر لینا ۔۔ وہ دروازے سے باہر نکل گیا، پر حیدرنہیں جانتا تھا کہ صباء کے قسمت میں اب پڑنا نہیں ۔۔۔وہ شیطانی جنات ہیں۔ صباء اپنے بستر پر سونے چلے گئی کوئی آدھی رات کو اسکی آنکھ کھلی اور ۔۔۔۔ وہ دیکھ کر چیخی کیوں کے وہ اپنے گھر میں نہی۔۔۔۔ اس کمرے میں تھی ،جہا سے وه اجنبی شخص اس کو گھر لے کر گیا تھا ۔۔۔ ” کون ہے، کون ۔۔۔۔۔۔۔صباء ڈر ڈر بولی ۔۔۔ ” میں یہاں کیسے آئییں۔۔۔ پر وہاں خوف اور چیخوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے ۔۔۔۔ آج یہ صباء کی بہت مشکل رات تھی ۔۔ ۔دوسری طرف حیدر نے سوچا کے میں رات کو ٹیویشن بچو کو پڑھا لیا کرو گا ۔۔۔۔۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صباء کے پاپا کو اک بڑی رقم ہر ماہ پہنچانی ہوگی تب ہی اسکا منہ بند رہےگا نہیں تو وہ صباء کی شادی کر دے گا ۔ حیدر بہت بے چینی محسوس کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا ۔۔اللہ سب بہتر کرے ۔۔ صبح کو صباء کے گم جانے کی خبر گاؤں میں پھیل گئی۔گاؤں کے سبھی لوگ بچی کی تلاش میں لگ گئے، جنگل کے وه کمرے میں بھی کئی بار جا کے دیکھا گیا پر صباء کہیں نظر نہیں آئی۔پر کوئی پتا نا چل سکا۔ گھر کا دروازہ بھی اندر سے بند تھا اور ایک چھوٹی بچی سوئی ہوئی بیڈ سمیت دیوار سے کیسے جا سکتی تھی۔۔ بس بچی جیسے غائب ہو گئی تھی۔ صباء کی ماں بھی رو رو کے پاگل ہو رہی تھی گاؤں والے بھی باتیں کرنے لگے، بھاگ گئی ہوگی، اغوا ہو گئی ہوگی، صباء کو ہوش آنے تک پھر سے رات ہو چکی تھی۔جب اس کو ہوش آیا ۔ اس کے سامنے پانی اور کھانا پڑا تھا۔ معصوم بچی تھی، کھانا کھا کے ہی اس نے اردگرد کا جائزہ لیا۔ کھانا کھا کے صباء کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی، اس لیے اس نے دوبارہ آوازیں دینا شروع کیں۔ بھاگتی رہی کے شاید کوئی راستہ مل جائے۔ پر اسکی ساری کوششیں بےکار ہی گئیں۔ تبھی اسے اک جن اسکی جانب آتا دکھائی دیا۔ اور وہ بلکل سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اسکا جسم نا تو انسان جیسا تھا نا ہی جانور جیسا ، ہاتھ ، پاؤں انسانوں جیسے تھے اور باقی جسم پر بس کالے سیاہ بال تھے۔صباء اسے دیکھ کر بہت خوف ذدہ ہو گئی جن نے کہا میں تیرا عاشق اس نے بہت نفرت سے کہااور ہسنے لگا ” بے فکر رہ، میرے دوست بھی تیرے عاشق ہیں، وہ بے ہودہ انداز سے بولا پر صباء کو سمجھ نہی آئی ” دیکھو مجھے گھر چھوڑ آؤ، میرے اماں ابا انتظار کرتے ہونگے دوسرا شیطانی جن بولا ، جو ابھی سامنے نہیں آیا تھا۔ ” دیکھو ڈرور مت، تم تو ہمارا کھلونا ہے، تجھے ماریں گے نہیں ہم۔۔ بس تجھ سے کھیلیں گے۔۔۔۔۔۔۔ جب تک ہم یہاں ہے،تجھے یہیں رہنا ہوگا۔۔۔۔۔ اور ہمارا یہاں سے جانے کا کوئی اردہ نہیں ہے” اس کے بعد باقی دو جنات بھی آگئے۔ “چل اب ذیادہ شور نا کرنا” آخری الفاظ جو وہ سن سکی، جنگل سے دور کہیں سے آتی ہوئیں چیخوں کی آواز بہت ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ کچھ وقت بعد چیخوں میں طوفان کی آواز بھی شامل ہوگئی۔ گاؤں کے سبھی لوگ گھروں سے نکلے۔۔۔۔ کوئی اک جانب دھوڑتا کوئی دوسری جانب۔ اک شخص جنگل کی طرف بھی نکل پڑا۔ جنگل کے اندر پہنچ کے اس نے صباء کو بہت آوازیں دیں ۔ صباء چیخی کے میں میں صباء ۔۔۔۔۔۔۔آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوں ، مجھے یہاں سے لے چل۔ مجھے گھر لے چلے ، پر وه آدمی اس کے پاس سے گزرا جیسے سنا ہی نا ہو۔ وه آدمی بہت تلاش کے بعد واپس چلاگیا ۔ سب گاؤں والے کہنے لگے صباء مر گئی ہے اور گاؤں پر کوئی مصیبت آگئی ہے۔۔۔ ۔ ادھر جنات نے صباء کو اک تفریح کا ذریعہ بنا لیا۔ معصوم بچی ساری رات کی ازیت کے بعد بس موت کے قریب ہوتی تو کسی طرح اس کے زخم پھر سے سل دیے جاتے۔۔ صباء پر موت کو بھی تنگ کر دیا ۔۔۔۔۔اسکی حالت کافی نازک تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کے آج کسی بھی طرح جنگل سے نکلے گی۔کمرے سے کمرہ، دیوار سے دیوار آتی رہی ، پر باہر کا راستہ کسی جانب نا تھا۔وہ بنا دروازوں کے قید ہو چکی تھی۔ وہ جنگل اسکے گھر سے کچھ دور تھا ۔۔۔۔۔۔ پورا دن کوشش کرنے کے بعد شام کو اسے بھوک نے ستانا تو ان جنات نے کھانے کے لیے اسے کھانا دیا میں یہ نہیں کھاؤنگی ۔۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو یہاں سے، ۔۔۔۔۔ ” روز روز تیرے لیے انسانی کھانا نہیں لا سکتے یہ ہی کھائے گی تو۔۔۔۔ ہم بھی یہ ہی کھاتے ہیں ۔۔میں یہ نہیں کھاؤ گی ۔۔۔۔ صباء نے بے بس ہو کے کہا۔اور اس کے بعد اسے کچھ ہوش نا رہا۔۔ صباء کافی زیادہ بیمار اور زخمی تھی۔ اس کے جسم کے کئی حصے اندرونی جانب سے زخمی تھے۔ ظاہری کوئی چوٹ نظر نہی آتی تھی ۔۔۔۔ صباء بس اب اس تکلیف سے نکلنے کے لیے موت کی دعا کرتی رہتی۔ایک ماہ بعد ریاض یار صباء میری بیٹی کی سہیلی تھی۔ میری بیٹیوں جیسی۔۔۔۔۔۔۔ خدا جانے اس معصوم بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے ، مجھے ڈر لگتا ہے کہ میری بیٹی بھی کہیں اک دن ایسے غائب نا ہو جائے ، اس لیے میں گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوں” اس نے بھری آنکھوں سے جواب دیا۔ ” تو مت جا یار۔۔۔ تجھے رب دا واسطہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے چھوڑ کے مت جا” “مجھے معاف کر دےریاض ۔۔۔ تجھے رب دا واسطہ جانے دے،،،، نہیں تو اس وحشت بھرے پنڑ میں ہم مر جائیں گےاس کے دوست جگے نے جواب دیا۔۔۔۔ گاؤں میں چیخیں ساری ساری رات سنائی دیتی ہیں۔ اور جب سے وہ گمی ہے پورا پنڈ ہی جیسے اجڑ گیا ہے، ساری ساری رات خوفناک آوازیں آتی ہیں۔ کمرے میں جاؤ تو لگتا ہے صحن سے آواز آرہی ہے، صحن میں جاؤ تو لگتا ہے کمرے سے آرہی ہے۔ ہر رات خوفناک طوفان آتا ہے۔ ہر رات موت سا خوف لاتی ہے۔۔۔۔۔ میں بھی بیٹیوں والا ہوں، تو مجھے جانے دے۔۔ایسے تو پورا پنڈ خالی ہو جائے گا ۔۔۔ اتنا درد ہر رات کوئی کیسے سن سکتا اور سہہ سکتا ہے”ریاض نے کہا کاش میرا بھی بیٹا ہوتا ۔۔۔۔۔ تو آج یہ منہوسیت نا ہوتی، خدا جانے مر گئی ، کہاں گئی ، پورے پنڈ کو مصیبت میں ڈال گئی ہے۔۔۔۔۔ریاض کو ابھی بھی بیٹی غصہ آ رہا تھا۔ ” رب سے ڈر ریاض ۔۔۔۔۔۔ پورا پنڈ تیری بیٹی کے لیے رو رہا ہے اور تو ہے کے ابھی تک جہالت میں ہی پھنسا ہے” ” کیا کروں ۔۔۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا ہوں نا ملتی ہے اور نا ہی اسکی آوازیں آنا بند ہوتی ہیں۔۔۔۔ریاض بھی بیٹی کے لیے پریشان تو تھا۔۔۔ جگا خدا حافظ کہتا چلا گیا ۔۔۔ریاض بھی اٹھ کر گھر کی طرف آیا ۔۔۔گھر کے دروازے پر ڈاکیہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔ سلام چچا ، تیری چٹھی آئی ہے کسی حیدرنے بھیجی ہے، ساتھ میں کچھ رقم بھی ہے، ریاض نے جب رقم دیکھی تو اچھی خاصی تھی جو کہ پورے گھر کے مہانہ اخراجات کے لیے کافی تھی۔ ریاض نے اسی پل فیصلہ کیا کے وہ حیدر کو صباء کی گمشدگی کا نہیں بتائے گا تاکہ اسے رقم باقاعدگی سے ملتی رہے۔۔ حیدر کو ایک ماہ ہوگیا تھا اسے نوکری بھی مل گئی تھی۔ وه صباء کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ڈیوٹی کرتا۔ مگر وہ ہمت کبھی نا ہارتا۔ ساتھ میں ہر روز صباء کے لیے دعا کرتا۔ اسے امید تھی کہ وہ بھی پڑھائی کرتی ہوگی۔وہ یہ سوچ کر مسکرایا۔۔۔۔حیدر نے قرآن حفظ کر لیا اب وه شہر میں اپنے والد کے ساتھ جنرل سٹور چلاتا۔ صباء آج بھی اک کونے میں بیٹھی تھی ، جیسے چھپ رہی ہو اس اک ماہ میں سب کچھ بدل گیا تھا۔وہ نا امید ہو گئی تھی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا اب اسے کوئی نہی ڈھونڈے گا۔ ۔ تبھی اس کے ذہن میں اک جملہ آیا صباء ۔۔۔ بچے آپ گر جائیں گی” اسے اچانک حیدر کا خیال آیا ۔ وہ تو اسے بلکل بھول گئی تھی۔ ” ابا تو حیدرکی بھیجی رقم دیکھ کے مجھے ڈھونڈنا ترک کر دینگے۔ ۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔مگر حیدرتو پانچ سال بعد آئے گا۔۔۔ تو کیا مجھے اسکا. انتظار کرنا ہوگا۔۔۔۔ ہاں شاید وہ ہی ہے جو مجھے آزادی دلا سکے”. صباء دو ماہ میں ہی سالوں بڑی ہو گئی تھی اسکی سوچ بہت پختہ ہو گئی تھی اس نے ٹھان لی کے وہ ہمت نہیں ہارے گی۔ ساتھ میں وہ حیدر کا انتظار بھی کرنے لگی۔ پر کوئی اور بھی تھا جو اسکا انتظار کر رہا تھا، ۔پر افسوس وہ اس بات سے نا واقف ہے کے صباء کس حال میں ہے ۔ ہر رات اک انتظار سب کی آنکھوں میں ہوتا۔ جب وہ آسمان کی جانب دیکھتی کے شاید کوئی معجز ہ ہو جائے۔کھبی تو میں یہاں سے نکلو گی مزید چار سال گزرنے کے بعد صباء کو گم ہوئے پانچ سال ہوگئے ۔ کئی گھر گاؤں کے خالی ہوگئے، اب وہ ہی لوگ رہ گئے تھے جن کی اپنی ذمینیں تھیں۔ بس صباء کا کسی کو کچھ پتا نہ چلا ۔ اسد صباء کا مگتیر جس کو صباء کا بہت انتظار تھا ۔۔اس کے ذہن میں ایک سوال تھا اگر صباء کا پتا چل جاۓ ۔۔تو وه اس کو قتل کر دے گا ۔۔۔۔۔ پانچ سال بعد حیدر جب شہر سے گاوں آیا ۔ تو اس نے صباء کے ابو سے سوال کیا کے صباء کہا ہے ۔۔۔ ریاض نے جواب دیا۔۔۔ وہ پتا نہیں کس کے ساتھ بھاگ گئی ہے ۔۔۔۔اچھا انکل تو آپ نے مجھے کیو نہیں بتایا ۔۔۔۔۔ ریاض جلدی سے بولا میں تم کو کیسے بتاتا ۔۔۔۔۔۔میرے پاس تیرا کونسا نمبر تھا ۔۔۔۔۔ حیدر نے اچھا کہا ۔ انکل آپ سچ بتاۓ۔ ۔۔کہیں آپ نے صباء کی شادی تو نہیں کر دی ۔۔اور اب آپ مجھ سے چھپا رہے ہو ۔۔۔۔ نہیں وہ پاگل تو پہلے ہی بھاگ گئی ۔۔۔۔۔۔ حیدر کو بھی لگا کے صباء کی شادی ہو گئی ہو گی ۔۔۔۔۔وہ شہر کے لیے واپس چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دن بعد ۔۔۔۔حیدر ۔۔۔بہت بے چین رہنے لگا اس کو صباء کے والد کی کچھ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔وه گہری سوچ میں تھا ۔۔۔۔۔ اچانک سے بستر سے اٹھ کر وضو کیا اور جاۓ نماز پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔رات دیر تک عبادت کرتا رہا ۔۔۔۔اور جا کر سو گیا ۔۔۔۔۔ اگلی صبح وه جلدی سے اٹھا. . امی کو سلام کر کے گاؤں کی طرف نکل آیا ۔۔۔۔ وه جلدی سے ریاض کے پاس گیا ۔۔۔اور اس سے کہا ۔۔۔۔ انکل پلیز مجھے بتا دے ۔۔صباء کہا ہے ۔۔۔رات کو میں نے اس کو اپنے خواب میں دیکھا ہے وه بہت تکلیف میں ہے ۔۔۔۔ ریاض پہلے تو کچھ بکا نہیں ۔۔۔جب حیدر نے کچھ رقم اس کے سامنے رکھی تو صباء کا باپ سب کچھ بول گیا ۔۔۔۔۔ صباء گم گئی تھی پانچ سال پہلے۔ کیا مطلب ہے انکل آپ کا ۔۔۔۔۔ جس رات تم چلے گے تھے ۔۔۔اسی رات وہ گم گئی ۔۔۔۔بیڈ سمیت جب کے گھر بھی بند تھا۔۔۔۔ آپ خود سوچو وہ دیوار پھلانگ کر بیڈ سمیت کیسے بھاگ سکتی ہے۔۔۔۔۔ اسے سمجھ آگئی کے جس رات وہ صباء سے ملا تھا اسی رات ہی وہ گم ہوئی تھی ۔۔ اور گاؤں میں سنائی دینے والی چیخوں سے اس نے اندازہ لگایا ۔۔۔۔ حیدر نے سوچ لیا ۔۔اور وه ایک عامل بابا کے پاس گیا ۔۔۔۔۔عامل نے حساب لگا کر بتایا ۔۔۔کے صباء زندہ ہے ۔۔۔۔اور جنوں نے اس کو اپنا کھلونا بنایا ہے ۔۔۔ حیدر بولا تو بابا جی ہم اب اس کو بچا نہیں سکتے ۔۔۔۔ بیٹا مجھے پہلے اس جنگل میں جانا ہو گا ۔۔۔۔۔اور پھر میں عمل شروع کرو گا ۔۔۔۔۔ اگلے دن عامل بابا اور حیدر دونوں جنگل گے ۔۔۔۔چلتے گے لیکن کچھ نہ ملا ۔۔۔۔۔آخر کار وه وه اس جگہ پر آ گے ۔۔۔عامل بابا اور حیدرنے جنوں کی چیخوں کی آواز سنی ۔۔۔۔۔اور جنوں کو تنگ کیے بغیر وہا سے آ گے ۔۔۔۔ راستے میں حیدر نے عامل بابا سے سوال کیا ۔۔۔۔ بابا جی آپ نے کچھ کیا کیو نہیں ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں بیٹا ۔۔۔۔میں نے وه بچی دیکھ لی ہے ۔۔۔پر ہم کو سخت عمل کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔اس لئے میں واپس آ گیا ۔۔۔۔مجھے پانچ دن تک یہ عمل کرنا ہو گا ۔۔۔اور آج رات کو میں اپنا کام شروع کر دو گا ۔۔۔۔ رات ہوتے ہی مکمل تیاری کے ساتھ واپس آیا ۔۔۔۔۔اور آتے ہی سیدھا اس کمرے میں صاف جگہ تلاش کی ۔ سفید چاک کا ایک دائرہ بنایا ۔۔۔ اس کے بعد وہ کسی نا نظر آنے والی مخلوق سے بات کرنے لگا۔ صباء ۔۔۔صباء بیٹا ۔۔۔۔میرے سامنے اؤ ۔۔۔۔۔صباء جو اس اجنبی کو دیکھ رہی تھی اور واقعی حالات نے اسے بہت بدل دیا تھا، وہ چلائی میں یہاں ہوں۔۔میں صبا ۔ صباء ۔۔۔۔۔مجھے بچا لے ۔۔۔۔۔صباء کے جواب پے جنات اونچی آواز میں ہسنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔صباء میں آپکو سن نہیں سکتا۔۔پر دیکھ سکتا ہو ۔۔ پر دیکھو میں آگیا ہوں ۔۔۔ میں آپ کو بچا لو گا ۔۔۔۔۔۔مجھے اس دائرہ میں ہی رہنا ہوگا۔ میں اس سے باہر نہیں آسکتا۔۔۔۔ اب جنات چاہتے تھے کے صباء عامل بابا بات نا کر پائیں ۔۔۔۔زور زور سے شراتیں کرنے لگے ۔۔۔ عامل بابا نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی ۔ پوری رات تلاوت کرتا رہا ۔۔۔۔ آج چھوتھا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور پڑھائی اثر کر رہی۔۔۔آج عامل بابا نے صباء سے تھوڑی بات کی ۔۔۔ اور پھر تلاوت شروع کر دی۔۔۔۔ آج جب عامل بابا سو رہا تھا۔۔۔۔رات کو صباء نے عامل بابا سے بات کی ۔۔۔۔۔۔اس لیے ایک جن نے صباء کے منہ پر تھپر مارا ۔۔۔۔۔۔۔وه جا کر زمین پر گری ۔۔۔۔دوسرے جن نے اس کو دیوار سے مارا ۔۔۔صباء کی آواز سن کر عامل بابا نے پڑھائی شروع کی ۔۔۔۔ جب کچھ دیر بعد قرانی آیات کا ایسا عمل کیا ۔ جس سے صباء کو جنات کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا پائے گے ۔۔۔۔ صباء یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔۔۔۔۔صباء آپکو یقین ہے نا کے آپ بچا لو گا ۔۔۔۔۔۔۔وہ صباء کو بھی مکمل اعتماد میں لیتا کیوں کے صباء کے حوصلے کے بنا یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔صباء ساری رات سامنے بیٹھ کے بس قرآن سنتی رہتی اور کبھی کبھی ساتھ دہراتی۔۔۔۔۔جنات بھی اپنی کوشش کرتے رہے .پورے کمرے میں چیخیں کی آواز تھی ۔۔۔۔ صباء اور عامل بابا کے عمل کرنا بھی مشکل تھا ۔۔۔۔۔صباء بیٹا آپ مجھے سن سکتی ہے ۔۔۔آپ کو اس دائرے میں آنا ہو گا ۔۔۔۔کسی طرح ۔۔۔۔عامل بابا نے بہت دفع یہ الفاظ کہے ۔۔۔۔کے صباء سن لے ۔۔۔۔۔۔صباء کسی طرح دائرے میں آ گئی ۔۔۔۔اب صباء اور عامل بابا ایک دوسرے کو دیکھ پا رہے تھے ۔۔۔۔۔عامل بابا نے ہلکی آواز میں صباء کے کان میں سارا عمل بتا دیا ۔۔۔۔اور دونو نے اپنی پڑھائی شروع کی ۔۔۔۔عامل بابا نے زیادہ سے مٹی اٹھا کر پورے کمرے میں اڈا دی ۔۔۔۔اور اس عمل سے جنوں کو باندھ دیا . . . اور مٹی کا تیل پھینکا۔اور صباء اور عامل بابا نے آگ لگا دی ۔۔۔اور دونوں وہا سے نکل آۓ۔۔۔۔صباء کے جسم سے جگہ جگہ سے خون سم رہا تھا ۔۔۔۔ جنگل سے نکل کر عامل بابا نے اپنا موبائل چلایا ۔۔اور حیدر کو کال کی کے وه صبح ہی گاؤں آ جاۓ۔۔۔۔۔۔صباء سہی ہے ۔۔۔۔اب میں اس کو اس کے گھر چھوڑ اؤ ۔۔۔۔۔تم میری رقم لے آنا ۔۔۔ اچھا میں آ جاؤ گا ۔۔۔۔۔۔ اچانک کسی گاؤں والے نے صباء کو دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے دیکھتے پورا گاؤں اکٹھا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ جب راتوں رات ریاض نے اپنی بیٹی کو اس حالت میں عامل بابا کے ساتھ دیکھا ۔۔۔تو اسد نے عامل بابا کو زور سے تھپیر مارا ۔۔اور اس کا موبائل غصے سے پاؤں میں دے کر توڑ ڈالا ۔۔۔۔ صباء جلدی سے اپنے باپ کے پاس جا کر کہنے لگی کے نہ ابا ۔۔۔اس بابے نے میری زندگی بچائی ہے اس کو کچھ نہ کہو ۔۔۔۔۔ ریاض تو اگے ہی جاہل تھا ۔۔۔اس نے بیٹی کے بال پکڑ کر زمین پر گرا دیا ۔۔۔۔۔۔ اسد غصے سے بولا کے دیکھ ریاض مامو میں اب تیری اس بیٹی سے اب شادی نہیں کرو گا ۔۔۔۔۔پر اگر تونے اس پنڈ میں رہنا ہے تو اس بابے سے اس کا نکاح صبح کروا دے ۔۔۔۔۔دیکھ اس کی حالت ۔۔۔۔۔ایسے جیسے پتا نہیں کتنے یار ہے اس کے ۔۔۔۔کون کرے گا اس گند سے شادی۔۔۔اگلی صبح جس عامل بابا کو گاؤں والوں نے رات کو ایک کمرے میں بند کیا تھا۔۔۔۔اس کو کمرے سے باہر لایا گیا ۔۔۔۔اور سولہ سالہ صباء کا نکاح اس سے کرنے لگے ۔۔۔۔۔سب انتظام ہو گے ۔۔۔۔۔۔۔صباء چلاتی رہی نہ کر ابا ۔۔میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔۔۔۔ پر ابا تو اس کا ہے ہی ان پڑھ تھا . . . ۔۔۔۔۔اس کے باپ نے صباء سے کہا کے اگر تو اس بابے سے نکاح نہ کرے گی تو میں گاؤں والو کو اس کے سامنے مار دو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صباء جو چپ ہو گئی ۔۔اس بابے کی وجہ سے تو یہ زندہ تھی ۔۔۔ان لوگو میں تھی ۔۔۔۔۔۔پر اب وه اس کو کیسے مرنے کے لیے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔ مولوی آ گیا صباء کو بلایا گیا ۔۔۔۔۔۔اتنی دیر میں حیدر وہا پہنچ گیا ۔۔۔۔۔جس کو سارا واقع کنول نے بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدر نے نہ اؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔۔اور جا کر ریاض کا گریبان پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔کیسا باپ ہے تو ۔۔۔کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کر رہا ہے ۔۔۔جو تیری عمر کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ریاض نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے نیچے کیے ۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی ہے میں جو مرضی کرو ۔۔۔۔۔۔۔اسد بھی آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔وه ریاض مامو کی بیٹی نہیں ۔۔۔کواڑ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی دیر میں باہر پولیس آ گئی ۔۔۔۔۔جنہوں نے صباء پر ہونے والے سارے ظلم کی داستان پورے گاؤں کو سنا دی ۔۔۔۔۔۔۔صباء کا باپ جو جاہل تھا ۔۔۔اس کی آنکھ سے آنسوں نکل آۓ۔۔۔اور پورا پنڈ اداس ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ حیدر صباء کے مگیتر اسد کے پاس گیا ۔۔۔۔اور کہنے لگا یہ کواڑ نہیں ہے ۔۔۔اتنی دیر میں حیدر کے والدین آ گے ۔۔۔۔اور حیدر کا نکاح صباء سے کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عال بابا ریاض کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔۔ بیٹیاں کو بڑا نہ کہو ۔۔۔یہ رحمت ہوتی ہے نہ کے زحمت۔۔۔!!!


ختم شُد


1 thought on “Jinn Aur Nanhi Saba Novelit by Ghazal Noor Shaikh”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top

روزانہ تازہ ترین ناولز کے لیے کوہ ناولز اردو کا فری واپس ایپ گروپ جوائن کریں۔۔